Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۳(کتاب الطلاق ،ایمان، حدود وتعزیر )
2 - 175
مسئلہ ۲تا۴:  

از ملک آسام ضلع جو رہاٹ ڈاک خانہ کٹنگا     بمقام سرائے     مرسلہ سید صفاء الدین     ۹/ربیع الاول ۱۳۱۲ھ 



کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں:



سوال اوّل: زید نے اپنی پہلی زوجہ ہندہ کے نکاح کے قبل وعدہ کیا تھا کہ اگر بلااجازت اس زوجہ مسمی بہ ہندہ کے نکاح ثانی کروں تو زوجہ ثانی کو تین طلاق، اس صورت میں کیا حکم ہےـ؟



سوال دوم: زید نے وقتِ نکاح اپنی زوجہ ہندہ سے یہ شرط کی کہ اگر بلااجازت تیرے نکاح  ثانی کروں تو تجھ کو تین طلاق۔



مسئلہ ۲تا۴: از ملک آسام ضلع جو رہاٹ ڈاک خانہ کٹنگا     بمقام سرائے     مرسلہ سید صفاء الدین     ۹/ربیع الاول ۱۳۱۲ھ 



کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں:



سوال اوّل: زید نے اپنی پہلی زوجہ ہندہ کے نکاح کے قبل وعدہ کیا تھا کہ اگر بلااجازت اس زوجہ مسمی بہ ہندہ کے نکاح ثانی کروں تو زوجہ ثانی کو تین طلاق، اس صورت میں کیا حکم ہےـ؟
سوال دوم: زید نے وقتِ نکاح اپنی زوجہ ہندہ سے یہ شرط کی کہ اگر بلااجازت تیرے نکاح  ثانی کروں تو تجھ کو تین طلاق۔
سوال سوم: زید نے قبل نکاح کے یہ شرط کی کہ میں اگر بلااجازت اس منکوحہ کے نکاح ثانی کروں تو میرا نکاح باطل، اس صورت میں کس بی بی کو طلاق ہوگی؟بینواتوجروا۔
الجواب

جواب سوال اول:اللّٰھم ھدایۃ الحق والصواب(حق وصواب کےلئے رہنمائی فرما۔ت)

صورتِ مستفسرہ میں تعلیق صحیح ہوگئی،
لوجود الاضافۃ الٰی سبب الملک وھو النکاح ولایضرکونہ قبل نکاح الاولی اذلیس المعلق طلاقھا حتی یحتاج الٰی ملکھا اوالاضافۃ الیہ اوالٰی سببہ بل طلاق الاخری وقد اضافہ الی نکاحھا۔
ملکیت کے سبب(نکاح) کی طرف اضافت پائے جانے کی وجہ سے اور پہلی بیوی کے نکاح سے قبل اضافت کا ہونا مضر نہیں کیونکہ اس نکاح والی کی طلاق کو معلق نہیں کیاگیا تاکہ اس کےلئے نکاح یا نکاح کی طرف اضافت یا ملکیت یعنی نکاح کے سبب کی طرف اضافت ضروری ہو بلکہ یہ دوسری عورت کی طلاق کی تعلیق ہے جس کو اس کے نکاح کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔(ت)
درمختار میں ہے:
شرطہ الملک حقیقۃ کقنہ اوحکما کمنکوحتہ او معتدتہ اوالاضافۃ الی الملک کان ملکت عبداوملکتک او نکحتک اھ۱؎ ملخصاً۔
ثبوت تعلیق کی شرط حقیقی ملکیت جیسا کہ لونڈی، یا حکمی ملکیت جیسا  کہ منکوحہ بیوی یا عدت میں مصروف بیوی یا ملکیت کی طرف اضافت ہو، مثلاً یُوں کہے اگر میں عبد کا مالک بن جاؤں یا تیرا مالک بن جاؤں یا تجھ سے نکاح کروں اھ ملخصاً(ت)
(۱؎ درمختار         باب التعلیق     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۲۳۰)
ردالمحتار میں ہے:
الاضافۃ الیہ بان یکون معلقا بلاملک کما مثل وکقولہ ان صرت زوجۃ لی او بسبب الملک کالنکاح ای التزوج وکالشراء اھ۱؎۔
ملکیت کی طرف اضافت جیسے ملکیت کے ساتھ معلق کرنا جیسا کہ مثال بیان ہوئی اور یہ کہ اگر تو میری بیوی ہوجائے یا ملکیت کے سبب کی طرف اضافت ہو یعنی نکاح کی طرف نسبت ہو، مثلاً یوں کہے''جب میں نکاح کروں،یا خریدوں''اھ(ت)
(۱؎ ردالمحتار         باب التعلیق         داراحیاء التراث العربی بیروت     ۲ /۴۹۵)
مگر قبل نکاح ہندہ اس کےلئے کچھ اثر نہیں کہ شرط وُہ نکاح ہے جو نکاح ہندہ سے ثانی ہو پس اگر پیش از نکاح ہندہ کسی عورت سے بے اجازت ہندہ نکاح کرے گا اسے طلاق نہ ہوگی نہ بعد موت ہندہ اس کا اثرباقی رہے گا کہ شرط اذن ہندہ ہے اور میت صالح اذن نہیں تو بعد موت ہندہ جس سے نکاح کرےگا اس پر بھی طلاق نہ ہوگی اب وہ تعلیق ہی نہ رہی،
فان امکان البر شرط بقاء الیمین ایضا عند الطرفین کما ھو شرط انعقادھا عندھما رضی اﷲتعالٰی عنہما۔
کیونکہ قسم کے پورا ہونے کا امکان قسم کے باقی رہنے کیلئے بھی امام اعظم اور امام محمد رضی اﷲعنہما کے نزدیک اسطرح شرط ہے جس طرح کہ ان کے ہاں یہ امکان قسم کے تحقق کےلئے شرط ہے(ت)
فتح القدیر میں ہے:
اذا حلف لایعطیہ حتی یا ذن فلان فمات فلان ثم اعطاہ لم یحنث اھ۱؎مثلہ فی ردالمحتار عن البحر۔
جب کسی نے یہ قسم اُٹھائی کہ میں فلاں کو یہ چیز نہ دوں گاجب تک دوسرافلاں اجازت نہ دے،ا ور دوسرے فلاں کے فوت ہوجانے کے بعد دے تو قسم نہ ٹوٹے گی اھ اسی کی مثل ردالمحتار میں بحر سے منقول ہے(ت)
(۲ ؎ فتح القدیر)
ہاں بقاء میں نکاح ہندہ کچھ شرط نہیں یہاں تک کہ اگر ہندہ اس کے نکاح سے خارج ہوجائے اگرچہ طلاق مغلظہ سے، تاہم جب تک وُہ زندہ ہے اگر بے اس کے اذن کے نکاح ثانی کرے گا زوجہ ثانیہ پر تین طلاقیں پڑجائیں گی،
فان المرأۃ لاحکم لھا علی بعل فحال الزوجیۃ وعدمھا سواء بخلاف الرجل فانھا تحتاج شرعا الٰی اذنہ فی خروجھا وغیرہ من امور کثیرۃ مادامت الوصلۃ باقیۃ فاذن الرجل فی مثل قولہ لاتخرج الاباذنی ینصرف الٰی ذٰلک المعہود والثابت بالشرح اماھی فلم تحتج الی اذنھا الا بالتعلیق ولم یفصل فیہ فلینتظم اذنھا مادامت حیۃ وان زال النکاح۔
عورت کا کوئی حکم خاوند پر لازم نہیں،خاوند کے لئے زوجیت اور عدمِ زوجیت دونوں حال برابر ہیں، اس کے برخلاف بیوی کے لئے خاوند کا حکم الزم ہے کیونکہ بیوی باہر نکلنے اور دیگر امور میں خاوند کی اجازت کی شرعاً محتاج ہے جب تک زوجیت باقی ہے تو خاوند کا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میری اجازت کے بغیر باہر نہ نکل اسی عرف اور شرعی ضابطہ کی طرف سے پابندی ہے، لیکن خاوندتعلیق کے ماسوا بیوی کی کسی اجازت کا محتاج نہیں ہے اور یہاں خاوند نے کوئی تفصیل بیان نہیں کی، لہذا بیوی سے نکاح ختم ہوجانے کے بعد بھی خاوند بیوی کی زندگی بھر میں اجازت کے بغیر دوسری عورت سے نکاح کرے گا تو دوسری کو طلاق ہوجائیگی۔(ت)
ردالمحتار باب الیمین فی الضرب والقتل میں ہے:
لو قال لامرأتہ کل امرأۃ اتزوجھا بغیر اذنک فطالق فطلق امرأتہ طلاقا بائنا او ثلثا ثم تزوج بغیر اذنھا، طلقت لانہ لم یتقید یمینہ ببقاء النکاح لانھا انماتتقید والمنع بعقد النکاح اھ فتح ای بخلاف الزوج فانہ یستفید ولایۃ الاذن بالعقد وکذارب الدین کما فی الذخیرۃ۱؎۔
اگر خاوند نے بیوی کو کہا میں جس عورت سے بھی تیری اجازت کے بغیر نکاح کروں تو اس کو طلاق ہوگی، اب خاوند نے بیوی کو طلاق بائنہ یا تین طلاقیں دے دیں اس کے بعد اس نے کسی عورت سے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو طلاق واقع ہوجائیگی کیونکہ اس نے قسم میں اجازت کو بیوی کے نکاح سے مقید نہ کیا تھا، اور یہ اجازت نکاح کے ساتھ مقید تب ہوتی جب عورت اپنے نکاح کی وجہ سے اذن یا منع کی ولایت حاصل کرتی اھ، فتح میں ہے، یعنی اس کے برخلاف خاوند کو نکاح کی وجہ سے ولایت اذن خودبخود حاصل ہوجاتی ہے، اور ایسے قرض دینے والے کو خود بخود قرض لینے والے پر ولایت حاصل ہوجاتی (کہ جب چاہے مطالبہ کرے) جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار         باب الیمین فی الضرب والقتل     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۳/ ۱۳۶)
پس حاصل حکم یہ کہ اگر بعد نکاح ہندہ بحالت حیات ہندہ طلاق ہندہ بے اذن ہندہ کسی عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی فوراً وہ زوجہ ثانی تین طلاقوں سے مطلقہ ہوجائے گی مگر اس کا اثر ایک باہر کر ختم ہوجائے گا یعنی اس کے بعد اگر پھر اور نکاح بے اذن ہندہ کرے گا اگر چہ بعد حلالہ اسی زوجہ ثانیہ سے،تو اب طلاق نہ ہوگی کہ تعلیق میں تعمیم نہ تھی کہ جتنے نکاح بے اذن کرے سب میں طلاق پڑے، لہذاصرف ایک بار پر انتہا ہو کر آئندہ کچھ اثر نہ ڈالے گی،
فی التنویر ینحل الیمین اذاوجد الشرط مرۃ الافی کلما۱؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
تنویر میں ہے کہ قسم ایک دفعہ شرط کے پائے جانے سے ختم ہوجاتی ہے الایۃکہ اس نے قسم میں ''کلما'' (جب بھی) کا لفظ استعمال کیا ہوتو قسم ختم نہ ہوگی۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
 (۱؎ درمختار  باب التعلیق مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۳۱)
Flag Counter